گفتگو، میر اسفر / علی سردار جعفری
Objective
Questions
1۔ ان میں سے کون ترقی پسند ادیب ہے؟1
(A) سجاد حیدر یلدرم
(B)
علی سردار جعفری
(C) ڈپٹی نذیر احمد
(D) خواجہ حسن نظامی
2۔ علی سردار جعفری کی پیدائش کسی ریاست میں ہوئی تھی؟
(A) مہاراشٹر
(B) مغربی بنگال
(C) آندھرا پردیش
(D) اتر پردیش
3۔
نصاب میں شامل گفتگو کیا ہے؟
(C) افسانہ
(۸) خود نوشت
(B) خاک
(D)
نظم
4۔
علی سردار جعفری نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز کس صنف سے کیا؟
(A) افسانہ نگاری
(B) غزل نگاری
(C) نظم نگاری
(D) انشائیہ نگاری
5۔
علی مردار جعفری کو پدم شری کے ایوارڈ سے کب نوازا گیا؟
1966(A)ء
1968(B)ء
1967(C)ء
1970(D)ء
6۔
درج ذیل میں علی سردار جعفری کا شعری مجموعہ کون ہے؟
(A) سنگ پیراہن
(B) سیارگان
(C) پرواز
(D)
سند باد
7۔
نظم ”میرا سفر کا شاعر کون ہے؟
(A) علی سردار جعفری
(3) اکبرالہ آبادی
(C) عمیق حنفی
(D) جوش ملیح آبادی
8۔
نظم ”گفتگو کو شاعر نے کس کے نام معنون کیا ہے؟
(A) امن کے نام
(B) جنگ کے نام
(C) ہند و پاک دوستی کے نام
(D) اپنے دوستوں کے نام
9۔
علی سردار جعفری اردو کی کس ادبی تحریک کے نمائندہ شاعر ہیں؟
(۸) ترقی پسند تحریک
(B)
جدیدیت
(C) علی گڑھ تحریک
(D)
ترقی پسند ادبی تحریک
10۔
انجمن پنجاب ماہانہ مجلسوں کا تعلق کسی شعری صنف سے ہے؟
(۸) غزل
(C)
مثنوی
(B) نظم جدید
(D) قصیدہ
11۔
”ان میں سے کون سی نظم علی سردار جعفری کی ہے؟
(A) میرا سفر
(B)سفرنامہ
(C) جستجو
(D)
میرا گھر
12۔
ا ن میں نظم نگار کی حیثیت سے کس شاعر کو تسلیم کیا گیا ہے؟
(A) فائز دہلوی
(B) شاد عظیم آبادی
(C) نظیر اکبر آبادی
(D)
میرا نیس
13۔
نظم ”شب قدر کے شاعر کون ہیں؟
(A) حالی
(B)
محمد حسین آزاد
(C) اکبر الہ آبادی
(D) جوش
14۔
ترقی پسند تحریک کے ابتدائی معماروں میں کسی شاعر کو تسلیم کیا گیا ہے؟
(A) علی سردار جعفری
(B) جگن ناتھ آزاد
(C) جوش ملیح آبادی
(D)
اقبال
15۔ علی سردار جعفری کی پیدائش کب ہوئی؟
1912(A)ء
1914(B)ء
1913(C)ء
1915(D)ء
16۔ علی سردار جعفری کی پیدائش کہاں
ہوئی؟
(A) بلرام پور (یوپی
(B) رام پور (یوپی)
(C) گھنشیام پور
(D) گورکھپور
17۔ علی سردار جعفری کی وفات کب ہوئی؟
1998
2000ء
1999ء
2001ء
Short
Answer Type Question
1۔
نظم گفتگو کے علاوہ علی سردار جعفری کی کون سی نظم آپ کے نصاب میں شامل ہے؟
جواب۔ نظم گفتگو کے علا و
علی سردار جعفری کی نظم ”میرا سفر ہمارے نصاب میں شامل ہے۔
2۔
نظم ”گفتگو کس شاعر کی تخلیق ہے؟
جواب۔ نظم گفتگو، علی سردار
جعفری کی تخلیق ہے۔
3۔
علی سردار جعفری کی پیدائش کب ہوئی؟
جواب۔ علی سردار جعفری کی
پیدائش 1913 ء میں ہوئی۔
4۔
علی سردار جعفری کی شاعری کا تعلق کسی تحریک سے تھا؟
جواب۔ علی سردار جعفری کی
شاعری کا تعلق ترقی پسند تحریک سے تھا۔
5۔
علی سردار جعفری نے اپنی نظم گفتگو کو کس کے نام معنون کیا ہے؟
جواب۔ علی سردار جعفری نے
اپنی نظم ”گفتگو کو ہند و پاک دوستی کے نام معنون کیا ہے۔
6۔
''میرا سفر نظم کی ہیئت کیا ہے؟
جواب۔ ''میرا اسفر الظلم کی
ہیئت آزاد نظم کی ہے۔
7۔
علی سردار جعفری کی پیدائش کہاں ہوئی؟
جواب۔ علی سردار جعفری کی
پیدائش اتر پردیش کے بلرام پور ضلع میں ہوئی۔
8۔
علی سردار جعفری کی چار نظموں کے نام بتائیے؟؟
جواب۔ (1) ایشیا جاگ اُٹھا۔
(۲) نی دنیا کو سلام (۳) گفتگو۔ (۴) میرا سفر کی
9۔ ۰علی سردار جعفری کی دو تنقیدی کتابوں کے نام بتائیں؟
جواب۔ ترقی پسند ادب اور
اقبال شناسی ان کی دو تنقید میں ہیں۔
10۔
سجاد ظہیر کے پاکستان جانے کے بعد علی سردار جعفری کو کون کی ذمہ داری
سونپی گئی؟
جواب۔ سجاد ظہیر کے پاکستان
جانے کے بعد علی سردار جعفری کو انجمن ترقی پسند مصنفین کا جنرل سکریڑی بنایا گیا۔
11۔
کسی تحفہ اور سوغات کی بات اس نظم میں آئی ہے؟
جواب۔ درد اور پیار کی سوغات
کی بات اس نظم میں آئی ہے۔
12۔ تاریوں بھری رات کسی طرح چلتی ہے؟
جواب۔ تاروں بھری رات ہم پر
ہنستے ہوئی چلتی ہے۔
13۔
کس فارسی شاعر سے متاثر ہو کر میرا سفر، نظم لکھی گئی ہے؟
جواب۔ علامہ اقبال سے متاثر
ہو کر یہ نظم ”میرا اسفر لکھی گئی ہے؟
14۔
کیا شاعر نے خود کو ایک تڑپتا قطرہ قرار دیا ہے؟
جواب: ہاں! شاعر نے خود کو ایک تڑپتا قطرہ اس نظم میں قرار دیا ہے۔
15۔
شام ملاقات کب تک چلے گی؟
جواب: شام ملاقات صبح تک چلے گی۔
16۔
الفاظ کے ہاتھوں میں کیا ہے؟
جواب: الفاظ کے ہاتھوں میں سنگ و دشنام ہے۔
17۔
طنز کیا جام چھلکا تا رہتا ہے؟
جواب: طنز زہر کا جام چھکا تا رہتا ہے۔
18۔
ترش ابروئے خمار سے آپ کیا سمجھتے ہیں؟
جواب ترش ابروئے خمدار سے مراد لیکھی نظریں لی گئی ہیں۔
19۔
کس کے چٹکنے کی صدا آتی ہے؟
جواب۔ غنچوں کے چکٹنے کی
آواز آتی ہے۔
Long
Answer Type Question
۱۔
نظم میر اسفر“ کا مرکزی خیال / خلاصہ لکھئے۔
دو جواب: ہمارے نصاب میں شامل نظم ”میرا اسفر کے شاعر علی سردار
جعفری ہیں۔ علی سردار جعفری جدید شاعر کی حیثیت سے محتاج تعارف نہیں۔ ہا یا۔ ہنیت
کے اعتبار سے یہ نظم آزاد نظم کے زمرے میں ہے۔ اس نظم میں شاعر نے فلسفیانہ انداز
اختیار کیا ہے اور انسانی زندگی کے وسیع تر تناظر میں زندگی کا ایک انوکھا فلسفہ
پیش کیا ہے جو فنی اعتبار سے منظر نگاری کی بہترین مثال ہے۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے
کہ ہر جاندار کے لئے موت لازمی ہے۔
شاعر علی سردار جعفری نے اس نظم میں موت کے سفر کی معنویت کو پیش کیا
ہے۔ چنانچہ وہ نظم کے پہلے مصرعہ میں کہتا ہے پھر ایک دن ایسا آئیگا کہ موت سے
پہلے آنکھ کی روشنی چلی جائیگی، زبان سے اس کی گویائی چھین لی جائیگی یعنی زندگی
میں اب تک انسان جو خوش گوار لمحے گزار چکا ہے موت سے پہلے وہ تمام باتیں مسخ ہو
جاتی ہیں۔ محفلیں ویران نظر آتی ہیں۔ یہاں تک کہ خون کی رفتار اور دل کی ڈھر کہیں
بند ہو جاتی ہیں۔ زندگی کی حالت میں یہ موت کی علامت ہے۔
شاعر کا یہ بھی دعوی ہے کہ لوگ مجھے موت کے بعد یاد کریں گے جب میں
دنیاوی زندگی میں کچھ ایسا کام کر جاؤنگا اور میری اچھائی ہی مجھے مرنے کے بعد
زندہ رکھے گی۔ نظم کے عنوان کا مطلب ہے زندگی سے گزرتے ہوئے موت تک کا سفر فکری
لحاظ سے یہ ایک عمدہ اور کامیاب نظم ہے۔
۲۔
علی سردار جعفری کی نظم ”گفتگو کا خلاصہ لکھئے۔
جواب زیر نصاب نظم گفتگو میں شاعر نے ہندو پاک دوستی کے موضوع پر
اظہار خیال کیا ہے۔ ہے۔ ہندوستان اور پاکستان ایک دوسرے کے پڑوسی ملک ہیں لیکن
دونوں ملکوں کے درمیان ہمیشہ کشیدگی برقرار رہتی ہے۔ ۱۹۴۷ء سے پہلے ہند و پاک دونوں ایک ہی ملک تھے اور حکومت برطانیہ کے غلام
تھے۔ دونوں ملکوں کے عوام نے مل کر ایک ساتھ آزادی کی جنگ لڑی اور انگریزوں کی
غلامی سے آزادی حاصل کیا۔ آزادی تو مل گئی مگر آزادی کے ساتھ ملک کے تقسیم کی
مصیبت بھی ساتھ لیں۔ ابتک ہندوستان کی دو بڑی قو میں ہندو مسلمان ایک ہی ملک میں
مل جل کر دوستی کے ساتھ رہتی آرہی تھیں۔ تقسیم ملک کے نتیجہ میں ان دونوں قوموں کے
درمیان سخت دشمنی ہوگئی اور ایک ہی ملک ہندوستان دو جغرافیائی خطوں میں تقسیم ہو
گیا۔ ایک کا نام ہندوستان باقی رہا اور دوسرے کا نام پاکستان ہو گیا اور اس طرح
دونوں ممالک ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے۔
شاعران تمام تاریخی اور سیاسی پس منظر سے واقفیت رکھتا ہے۔ اس لئے
شاعر نے دو ملکوں کے ان آپسی مسائل کا سے واقفیت رکھتا ہے۔ لئے حل گفتگو کے ذریعہ
کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ شاعر کے خیال میں گفتگو ایک ایسی چیز ہے جس سے دنیا کے بڑے
بڑے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ شاعر کو ہند و پاک کے مسائل کا حل بھی گفتگو میں
ہی نظر آتا ہے۔ اس لئے وہ چاہتا ہے کہ دونوں ممالک کے حکمرانوں کے ذریعہ گفتگو کا
ایک ایسا سلسلہ شروع کیا جائے جو اس وقت تک ختم نہ ہو جب تک دونوں ملکوں کے مسائل
حل نہ ہو جائیں۔
0 Comments