بھولے بسرے گیت
شفیع جاوید
Objective Question
1۔ شفیع جاوید کا آبائی وطن کہاں ہے؟
(A) گیا
(B) دربھنگہ
(C) پٹنہ
(D) مظفر پور
2۔ شفیع جاوید کا اصل نام کیا ہے؟
(A) شفیع احمد
(B) محمد شفیع الدین
(C) شفیق الدین
(D) شفیع اللہ
3۔ شفیع جاوید نے کسی مضمون میں ایم اے کیا؟
(A) اردو
(B) فارسی
(C) سماجیات
(D) انگریزی
4۔ محکمہ اطلاعات و نشریات میں شفیع جاوید کس عہدہ پر فائز تھے؟
(A) کلرک
(B) آفیسر
(C) انجینئر
(D) ڈائرکٹر
5۔ شفیع جاوید کے پہلے افسانہ کا عنوان کیا ہے؟
(A) آرٹ اور تمباکو
(B) فائن آرٹ
(C) ادب اور آرٹ
(D) آرٹ اور سماج
6۔ شفیع جاوید کا پہلا افسانہ کب شائع ہوا؟
(A)1952ء
(B)1954ء
(C)1953ء
(D)1955ء
7۔شفیع جاوید نے کس یونیورسٹی سے ایم اے کیا؟۔
(A) بہار یونیورسٹی (B) مگدھ یونیورسٹی
(C) پٹنہ یونیورسٹی (D) بھاگلپور یونیورسٹی
8۔سید عزیز احمد کوڈائرکٹر سے ریٹائر ہوئے کتنے سال ہوئے تھے؟
(A) دس سال (B) نوسال
(C) آٹھ سال (D) چھ سال
9۔ عزیز احمد کی تنہائیوں کا پرانا ساتھی کون تھا؟
(A) ٹی وی (B) ٹرانزسٹر
(C) اخبار (D) ناول
10۔ عزیز احمد کے مطابق لوگ عہدے سے کیا کرتے ہیں؟
(A) سکینڈ ہینڈ (B) ٹھیک ہینڈ
(C) فرسٹ ہینڈ (D) ان میں کوئی نہیں
11۔ بھولے بسرے گیت کس کا افسانہ ہے؟
(A) شفیع جاوید (B) سلام بن رزاق
(C) جیلانی بانو (D) شوکت حیات
12۔ جر نلسٹ روی رنجن عزیز احمد کے کون تھے؟
(A) پرانے دوست (B) پرانے دشمن
(C) چچا (D) بھائی
13۔شفیع جاوید کس صنف سے وابستہ ہیں؟ -
(A) شاعری (B) افسانہ
(C) انشائیہ
(D) خاکہ
14۔ شفیع جاوید کی پیدائش کب ہوئی؟
(A)1934ء
(B)1936ء
(C)1935ء
(D)1937ء
15۔ شفیع جاوید کا پہلا افسانہ کسی رسالہ میں شائع ہوا؟
(A) ماہنامہ مخزن (B) الپنچ
(C) ماہنامہ افق (D) ان میں کوئی نہیں
16۔ سید عزیز احمد کسی افسانے کا کردار ہے؟
(A) ابراہیم سقہ (B) پراس
(C) بھولے بسرے گیت (D) ٹو بہ ٹیک سنگھ
Short Answer Type Question
1۔سید عزیز احمد کسی عہدے سے سبک دوش ہوئے؟
جواب: ڈائرکٹر جنرل کے عہدہ سے سبکدوش ہوئے۔
2۔سید عزیز احمد نواسہ ٹیلی ویژن پر کیا دیکھ رہا تھا؟
جواب: '' لو آن انٹرنیٹ دیکھ رہا تھا۔
3۔روی ریجن کون تھے؟
جواب روی رنجن عزیز احمد کے پرانے جرنلسٹ دوست تھے۔
4۔کیا ڈاکٹر کی بات سن کر وہ سنائے میں آگئے؟
جواب: ہاں! ڈاکٹر کی بات سن کر عزیز احمد سناٹے میں آگئے۔
5۔ان کا اپنا ایک اور پرانا ساتھی کیا تھا؟
جواب: ٹرانزسٹر ان کا پرانا ساتھی تھا؟
6۔ٹرانزسٹر مل جانے کے بعد کیا ان کے چہرے پر فاتحانہ چمک تھی؟
جواب: ہاں! ان کے چہرے پر فاتحانہ چمک تھی۔
7۔ بھولے بسرے گیتوں کا پروگرام کتنے بجے ختم ہو گیا؟
جواب: صبح کے ساڑھے آٹھ بجے بھولے بسرے گیتوں کا پروگرام ختم ہو گیا۔
8۔افسانہ بھولے بسرے گیت کے دو کرداروں کے نام بتائیے؟
جواب:افسانہ بھولے بسرے گیت کے دو کرداروں کے نام عزیز احمد اور روی رنجن ہیں۔
9۔ بوستان خیال اور سڑک کے کنارے کتا بیں کسی صنف میں ہیں؟
جواب: بوستان خیال کا تعلق صنف داستان سے ہے جبکہ سڑک کے کنارے کا تعلق صنف افسانہ سیہے۔
Long Answer Type Question
سوال۔ بھولے بسرے کیت کا کا خلاصہ
جواب: بھولے بسرے کیت'' کے عنوان سے ہارے نصاب میں ایک انسان شامل ہے جس کے کلی کر لی جاوید ہیں۔ اس افسانے میں شفیع جاوید نے ملازمت سے سے سبکدوشی کے بعد تنہائی کے کرب پر نہایت فنکارانہ انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ کہانی کچھ اس طرح ہے کہ افسانہ کے مرکزی کردار سید عزیز احمد ڈائرکٹر جنرل کے اعلیٰ عہدہ سے ریٹائر کر چکے تھے۔ بعد ازاں ملازمت کے چند روز بعد تک اپنے دفتر آتے جاتے رہے تو ان کے ماتحت عملہ بھی انہیں سلام و کلام کرتے رہے لیکن ان انہوں نے جب اپنی گاڑی بیچ دی تو گھر میں ایسے گوشہ نشیں ہو گئے تو فطر تا لوگوں سے ملنا جلنا سے ملنا جلنا بھی کم ہو گیا۔ لوگ رفتہ رفتہ یہ بھی بھول گئے کہ عزیز احمد نام کا کوئی ڈائرکٹر جنرل بھی تھا۔ یہاں تک کہ لوگ یہ بھی فراموش کر گئے کہ عزیز احمد نام کا کوئی آدمی بھی تھا یعنی اب وہ صرف نانا یا چارہ گئے تھے۔ وں اس تنہائی کے کرب میں عزیز احمد کو اپنے عہدے کا زمانہ یاد آتا تھا تو وہ ماضی کے اوراق میں گم ہو کر اونگھنے لگتے تھے۔ عزیز احمد کا ایک چھوٹا سا گھر تھا جس میں گھٹن سے بھرا ماحول تھا۔ سماج سے تو وہ نظر انداز ہو ہی چکے تھے۔ گھر والوں کے درمیان بھی وہ اجنبی ہو گئے تھے۔ اگر کبھی کسی پروگرام میں چلے بھی جاتے تھے تو لوگ انہیں بریکار اور ریٹائر ہونے کا طعنہ دیتے تھے۔ زندگی۔ کے اس موڑ پر سید عزیز احمد کو زندگی کی بے ثباتی اور اس کے فلسفہ کا احساس ہونے لگا تھا۔ اس پر طرہ یہ کہ اس تنہائی کے کرب میں ان کی اہلیہ اور بیٹا انہیں چین سے رہنے نہیں دیتے تھے اور ہمیشہ کچھ کچھ کمانے کا مشورہ دیتے رہتے تھے۔ اس
بے کسی کے عالم میں ٹراز سٹر جو ان کا پرانا ساتھی تھا انہیں جب اس کی یاد آتی تو اسے تلاش کر سننے لگے۔ صبح کے ساڑھے آٹھ بج چکے تھے اور ریڈیو پر بھولے بسرے گیت کا پروگرام بھی ختم ہو چکا تھا۔

0 Comments